مرکز کے وجود میں آنے کا طریقہ اور تاریخچہ

مهدی صادقی تهرانی جو حکیم صادقی سے معروف ہیں مرحوم آیت الله العظمی ڈاکٹر محمد صادقی تهرانی میانی فرزند ہیں اور ان کی ولادت 1346 هجری شمسی میں ہوئی ہے. یہ پہلوی ظالم حکومت کے ظلم کی وجہ سے اپنے والد کے ساتھ پورے خانوادہ کے ہمراہ وطن سے ہجرت کرکے نجف پہونچے اور پھر وہاں دو سال قیام کے بعد لبنان ہجرت کر گئے . بیروت اور جباع نامی شہروں میں تقریباً 9 سال قیام کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لبنان کے عربی مدارس اور اسکول میں مکمل کی اور ان سالوں میں تقریباً دو سال لبنان کے اندر داخلی جنگوں کے وجہ سے مکہ مکرمہ چلے گئے اورمکہ مکرمہ کے مدرسہ میں چوتھے اور پانچویں کلاس کی تعلیم مکمل کی۔

ایران سے ہجرت اور وطن واپسی:

مکہ مکرمہ میں والد علّام کی شہنشاہی مخالف تحریکوں میں شرکت اور انکے قید ہوجانے سے آپ سعودی عرب ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور خانوادہ کے ساتھ لبنان واپس آگئے.اس وقت جب کے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہوئی 22 بہمن 1357 شمسی(11 February 1979) میں 17 سال کی طولانی ہجرت کے بعد مرحوم اپنے وطن ایران واپس آگئے اور شہر مقدس قم میں زندگی گذارنے لگے۔ دور شہر نامی روڈ پر واقع مدرسہ پارس میں پانچویں کلاس کی تعلیم حاصل کی اور میڈیکل کلاس کی تعلیم کوچہ ممتاز کے آخر میں واقع چہارراہ بیماستان پر موجود مدرسہ صدر میں حاصل کی اور ہائی اسکول سائنسSubject سے بلوار امین میں واقع مدرسہ حکیم نظامی اور موسیٰ صدر میں مکمل کی۔

قرآنی اور حوزوی کارکردگی:

ایران میں مڈل ،پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران دیگر بھائیوں کی نسبت عمری تقاضوں میں نیز قرآنی علوم سے لگاؤرکھنے والا یہی وہ اکلوتا بیٹا تھا جو ہمیشہ اپنے باپ کے تفسیر کے دروس او کلاسوں میں شکت کرتا تھا اور درسی سیڈیز بنانے اور درس کو ریکارڈ کرنے میں جناب وزیری ،سید نیاز ہمدانی اور علوی پاکستانی کے ساتھ تعاون کرتا تھا نیز ان کا وجود مرحوم کے جامعہ علوم قرآن میں ہر آن مشاہدہ ہوتا تھا۔

جامعہ علوم قرآن کی مدیریت اور ان کا کردار :

اس وقت یہ مرحوم کے دروس میں ممتاز شاگردوں کی فہرست میں شمار ہوتے تھے اور جب طلاب اور شاگردوں کا مرحوم سے براہ راست رابطہ نہیں ہو پاتا تھا تو شبہوں کا جواب اور تفسیری دروس کی توضیح یہ خود ہی دیا کرتے تھے ۔ان کے اعتراضات اور بحثیں کبھی کبھی اپنے استاد کے بعض فتووں میں نظیات کے بدلنے کا باعث ہوتے تھے۔ معین شرائط کے ساتھ عورت کو طلاق دینے کا حق کی بحث کہ حقوق بانوان نامی کتاب میں ذکر ہوئی ہے ،گھر پر باپ سے ہونے والے مباحثوں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے استاد کے نظریات کو مکمل تبدیل کردیا۔

باپ کی تاکیدیں:

باپ کی تاکید کے مطابق صرف و نحو عربی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور ا دروس کو قول یا رد کرنے میں آشنائی کے لئے حوزہ میں گئے اور سطح کے دروس آذر روڈ پر واقع قم کے مدرسہ رضویہ میں شروع کی اور خارج تک فقہ کے سارے دورہ تمام کئے نیز انہوں نے حوزوی دروس کے ساتھ ساتھ جامعہ علوم قرآن میں ہونے والے مرحوم کے سارے دروس میں بھی شرکت کرتے تھے ،ان کے قرآنی علوم میں تبحر کی وجہ ان کا گھر پر موجود رہ کر استاد سے خصوصی اور عمومی ملاقات میں طلاب اور فضلا سے رابطہ ہے نیز حوزوی اور قرآنی علوم سے معلق بحثوں اور جدلوں کو سننا اسی طرح استاد کی اس وقت کے مراجع کے ساتھ خصوصی بحثوں میں براہ راست موجود ہونا ہے۔

جامعۃ القرآن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری(سند) لینا

ان کی جامعۃ علوم القرآن کے تاسیس کے دن ہی سے اسی قرآنی علوم یونیورسیٹی میںبراہ راست اور دائمی شرکت ہے یہاں تک کہ انہوں نے جامعۃ علوم قرآن یونیورسیٹی کے دروس خارج میں بھی شرکت فرمائی اور اس مقام پر ائز ہوگئے کہ اکثر فتووں میں مستقل طور پر اپنے نظریہ کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ علوم قرآن یونیورسیٹی وائس چانسلر مرحوم علامہ آیۃ اللہ العظمیٰ ڈاکٹر محمد صادقی تہرانی ان دنوں اپنے جچھ شاگردوں کے لئے جو مختلف سطح میں دائمی شرکت کرتے تھے اسی طرح جو ان سے امتحانات لیتے تھے مختلف سطح میں ڈگری عطا کرتے تھے کہ (حکیم صادقی ) ے لے بھی علوم القرآن یونیورسیٹی نے ڈگری عطا کی۔

تفسیر کے دروس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھی پالنے کا کام شروع:

ان سالوں میں یہ (حکیم صادقی) علوم قرآنی کےایک لائق ادیب اور استاد کے دیگر شاگردوں سے آشنا ہوئے اور چند سالوں میں ان کے تعاون سے شہد کی مکھی پالنے کے موضوع سے کام میں مشغول ہو گئے۔ ان کی زوجہ محترمہ کی فداکاری سے 50 کالونی شہد کی مکھی خریدنے کا پہلا سرمایہ فراہم ہوگیا ۔ 250عدد مکھی خانہ کا نقل مکانی میناب، جیرفت، آب گرم کر اور قم اور قم و رهق کاشان جیسے دیگر علاقوں۔قابل ذکر ہے کہ شہد کی مکھی پالنے کا کام علوم قرآنی کے دروس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ انجام پاتا رہا۔ میں اس دوران ان سے سوال کیا کہ شہد سے آپ نے کیا نتیجہ نکالا؟ تو انہوں نے کچھ غور و فکر کرنے کے بعد کہا: ناچیز نے چونکہ جامعہ علوم القرآن میں تعلیم حاصل کی ہے اور قرآنی علوم میں کافی مہارت اور تبحر رکھتا ہوں شہد کو قرآن میں شفا نام رکھنا بلاوجہ نہیں سمھجتا تھا اور اس فکر میں تھا کہ اس کے شفا ہونے کو ثابت کروں اس لئے میں نے شہد کو خاص مادہ نہیں سمجھا بلکہ شہد کو مختلف رنگوں کا شربت جانتا تھا کہ اس کے گوناگوں اقسام مختلف امراض کے لئے شفا اور علاج سمجھ رہا تھا۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ شہد سے پہلی شفا بخشی اور علاج آپ نے کہاں اور کس طرح دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا:6سال کی عمر میں (لبنان کی معمورہ روڈ،بشیر بلڈینگ) جب میرے ہاتھ کی دمنی(Artery) شیشہ سے کٹ گئی تو جس چیز نے خون کو بہنے سے روکا تھا وہ کھانے کے چمچے سے ایک چمہ شہد تھا کہ میرے والدین تیزی کے ساتھ سوتی (Cotton) کپڑے پر ڈال کر کٹی جگہ پر رکھ کر باندھ دیا تھا اس کے بعد کامل علاج کے لئے اسپتال گیا۔

صادقی شہد(دوا اور شفا شہد):

شہد کے متعلق ان کے اس زاویہ نظر سے ایران میں چند سال سرگرمی کی وجہ سے عسل صادقی(دوا اور شفا شہد) خالص اور سالم شہد فروخت کرنے کے لئے ان کا اصلی نعرہ تھا کہ قم کی بسوں پر پوسٹر لگایا اور شہد استعمال کرنے کے رواج کی خاطر قم کے ریڈیو سے پہلی آواز کانوں سے ٹکرائی۔

شہد کے لئے سب سے پہلا لیبراٹری سینٹر:

انہوں نے ایران میں سب سے پہلا لیبراٹری سینٹر جناب محمود صادقی جو اس وقت کاشان کی یونیورسیٹی میں کیمیات سائنس (Chemistry) کے کورسز میں مشغول تھے ،کی مددد سے بنایا۔اس مرکز سے نجف آباد اصفہان وغیرہ کے شہد پالن کرنے والوں کی اتحادیہ انجمن اور ایران کے دیگر شہد فروش افراد استفادہ کرتے تھے ۔ہمیں ذکر کرنا چاہیئے کہ جناب محمود صادقی شہد کے لیبراٹری تعلیمی دورہ حاصل کرنے کے لئے کرج کوتوالی میں ایک دورہ کیا اور سٹینڈرڈ لیبراٹری سند حاصل کر کے اسLabمیں سرگرم ہو گئے۔ علمی اور تحقیقی سرگرمیاں: یہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے غذائی اور معالجاتی لحاظ سے شہد کے فرق کو واضح کیا اور شہد کو کیفیت کے لحاظ سے تقسیم کیا اور ہر ایک کی خاص قیمت کے قائل ہوئے ۔اسی طرح شہد کو امتحان کی شرط کے ساتھ خرید و فروش اور مختلف علاقوں کے شہد کی قیمت گذاری کو ایران میں جگہ دی۔

فعالیت های علمی و پژوهشی:

ایشان اولین کسی بود که تفاوت عسلها را از نظر ارزش غذایی و دارویی بازگو می نمود و عسلها را از نظر کیفیت تقسیم و برای هر کدام قیمت خاصی قائل بود. خرید و فروش عسل را با شرط ازمایش همچنین تفاوت در قیمت گذاری عسلهای مناطق مختلف را در ایران جا انداخت.

تہران کی بین الاقوامی نمائشگاہ میں شرکت:

تہران کی بین الاقوامی نمائشگاہ میں شرکت اور 6کالونی زندہ نمائشگاہ کے داخلی حال میں رکھنا اور شہد استعمال کرنے کے طریقہ اور اس کی قسموں کا پروپیگنڈہ اور آزمائش کی شرط اور شہد کے شفا بخش استعمال کے لئے ایک بڑا اقدام اٹھایا کہ انہوں نے لوگوں کی آگاہی اور نمائشگاہ میں موجود معاونین کی معلومات کے لئے(شرکت تعاونی اصفہان،کرج،نجف آباد وغیرہ) ایک انوکھا اور بڑا اقدام اٹھایا۔ شہد کے شکر جیسے دانہ دار ہوجانے اور لوگوں کی اس شفا بخش مادہ کے بارے میں کافی معلومات نہ ہونے اور دسترخوان پر اس کے بہت کم استعمال اور اس دور میں شہد کے ایک شفا بخش دوا کے عنوان سے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ان کو زبردست شکست ہوئی۔ان کے شکست کے ساتھ ایران میں مرحوم کے ایک پرانے جان پیہچان کے آدمی سے آشنا ہوئے اور ان کے شہد پالن اور اس کی خرید و فروخت کے بارے میں ماہر اور کافی آگاہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ 50٪ 50٪تعاون کرتے ہیں۔

بیرون ملک سفر اور بین الاقوامی نمائشگاہ اور شہد کی مکھی پالن میں شراکت:

انہوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ لبنان کا سفر کیا۔ میں نے انہیں سے سنا کہ یہ اس سفر میں اپنے ہمراہ جہاز میں ایک کالونی زندہ لے گئے تھے کہ مجھے تعجب ہوا اور انہوں نے اظہار فرمایاکہ مجھ سے لبنان کی نمائشگاہ میں نمائش کے لئے ایک کالونی کی درخواست کی گئی تھی اس شرکت کے بعد عین المرسیہ علاقہ میں موجود بیروت اکسبو نمائشگاہ(بین الاقوامی نمائشگاہ) میں لبنان میں شہد کی مکھی پالن سے متعلق سرگرمی ایران سے 170کالونی (10روز کے اندر کانٹینر کے ساتھ) لانے کے لئے انصار علاقہ، معیصره، أفقی، عیون السیمان اور لبنان کے دیگر علاقوں میں مشغول ہوگئے۔انہوں نے اظہار کیا کہ إکسبو بیروت نمائشگاہ، بعلبک، طرابلس، صور و صیدا، صیدلیہ نحلہ الشفا(شہد کی مکھی کا شفا دواخانہ) میں اپنی بیوی کے ساتھ مشغول ہوگئے۔

پروفیسر بصبوص – ڈاکٹرتمیم اور ڈاکٹر سمیر فاعور سے آشنائی:

ان سالوں کے دوران پروفیسر بصبوص، ڈاکٹرتمیم اور ڈاکٹر سمیر فاعور سے آشنا ہوئے اور ان کے تجربوں سے استفادہ کیا اسی طرح پروفیسر بصبوص کی خدمت میں اس سلسلہ میں ایک دورہ تمام کیا۔ میں ن ے ان سے سوال کیا کہ نمائشگاہ کے امور آپ کے موجودہ تحقیقات سے سازگار نہیں ہیں ۔کیا آپ کی مہارت اس دورہ کی بنا پر ہے جو آپ نے پروفیسر بصبوص کی خدمت میں تمام کئے ہیں یا اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ بھی ہے؟

شہد اور شہد کی مکھیوں کے محصولات(Products) سے علاج کی عملی شکل:

انہوں نے اظہار فرمایا کہ شہد اور اور شہد کی مکھیوں کے محصولات(Products) سے علاج کی عملی شکل ناچیز کے قرآن سے آشنائی کے ابتدائی دور سے آغاز ہوا اور اس سلسلہ میں لبنانی نمائشگاہ کچھ اس طرح تھی کہ مختلف شہد کی قسموں کو مختلف قسم کی بیماریوں کے لئے میں نے تجویز فرمایا اور اس مجموعہ کا نام شہد کی مکھی کا شفا دواخانہ رکھا اس دوا خانہ کا شہد نمائشگاہ میں دیگر معاونین کے شہد سے دو یا تین گنا زیادہ قیمت میں فروخت ہوتا تھا ۔لیکن میں مختلف امراض کے لئے شہد وجہ دریافت کئے بغیر صحتیابی کی شرط کے ساتھ بیماروں کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جب شفا ہونے لگے تو مبلغ دیدیں اور اس کے علاوہ بطور ہدیہ قبول کریں۔مریض کا تاثیر سے مطمئن ہونا اسی طرح مناسب انتخاب اور شہد استعمال کرنے کا طریقہ باعث ہوا کہ بیمار صحتیاب ہوں۔ اس تجویز پر لوگوں کا استقبال بھی باعث ہوا کہ اس سلسلہ میں بہت سارے دوست پیدا ہوگئے اور بہت سارے لوگ معالجاتی شہد کے علمی اور تحقیقی Testingسے دچار ہوئے ۔ سارے Testing اور خطا وغیرہ کے نتائج پروفیسر بصبوص ،ڈاکٹر سمیر فاعور اور ڈاکٹر تمیم کے سامنے بیان کیا تو ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی نے مجھے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ اور مصمم بنا دیا ۔اس کے دوران بھی میں نے شہد پالن سے ہاتھ نہیں کھینچا اور میں ہمیشہ نامیاتی شہد(Organic Honey) کی حد میں تولید کرنے والا رہا۔

لبنان میں شہد پالن اور شہد کی مکھیوں کے حملہ کا دردناک واقعہ:

مرحوم (آیۃ اللہ صادقی تہرانی) کے قیام آواخر میں قلعہ طرابلس لبنان کے علاقہ میں 50 کالونی شہد کی مکھیوں کے ذریعہ ڈاکٹر حبیب کے ساتھ شریک ہوگیا۔اور ایرانی کالونی شہد کی مکھیوں لبنانی شہد کی مکھیوں کے کالونی میں رکھنے کے لئے دن دھاڑے ایک ایسا دردناک حادثہ رونما ہوا کہ اس علاقہ میں ان کے خانوادہ کی دوسرے ایرانی خانوادہ کے ساتھ ہمراہی اور ان کے ذریعہ ان لوگوں کی نجات ان کے لئے (بہت زیادہ یعنی ہزار سے بھی زیادہ ڈنگ لگنے کی وجہ سے) زبردست صدمہ کا باعث ہوا ۔علاقہ کا فوری اایمرجنسی مرکز میدان میں آگیا اور ان کے لئے خاص قسم کا Drips لگایا گیا جو ان کے جگر میں مشکل کا سبب بنا بعض غذاوں کے کھانے سے ان کے جسم میں آبلے پڑ گئے اور ان کے اندر گھٹن کی کیفیت پیدا ہوگئی اور حملہ کی اس کیفیت کی ہفتہ میں دو بار تکرار ہونے لگی۔ میں نے ان سے سوال کیا آپ اپنے لئے شہد کا علاج کیوں نہیں کیا؟انہوں نے فرمایا تنہا شہد کا استعمال اس زمانہ کی علمی تحقیقات کے ساتھ 10٪یا20٪ میری مدد کرتا تھا لیکن میں نے اپنی زوجہ محترمہ خانم مصطفوی جو غذا کی اسپشلیسٹ اور ماہر تھیں کی رہنمائی سے غذائی پرہیز اور زرشک(Barberry)، ککڑی کا پانی ،تازہ املی ،لیمو ترش اور ان کے ذریعہ مناسب غذا کی مدد سے میں نے اس ایمرجنسی حالت سے نجات پائی اور شاید 30دن میں ایک بار وہ بھی بہت معمولی حملہ ہوتا تھا ۔میں اس وقت متوجہ ہوا کہ زرشک(Barberry) کے پانی سے شہد کو مخلوط کرنا جیسے میری بیوی نے تیار اور تجویز کیا تھا میرے لئے تقریبا90٪ میری مشکل حل کردی۔لہذا مجھے یہ فکر لائق ہوئی کے شہد اور زرشک(Barberry) کا پانی کا نچوڑ بناؤں تا کہ اپنے علاج میں اس سے بہرہ مند ہو سکوں۔

شہد کے ساتھ جڑی بوٹیوں کا عرق نکالنے کی ایجاد:

میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اس زمانہ میں شہد اور جڑی بوٹیوں کا نچوڑ بنانے کا کشف کیا ہے؟ انہوں نے کچھ تامل کر کے فرمایا اتفاق سے میری اسی بیماری کے واقعہ اور دردناک حادثہ نے مجھے اس بات پر ابھارا کے زرشک(Barberry) کے پانی اور شہد کو باہم مخلوط کرنے کی فکر کروں اور یہ کےزرشک(Barberry) کے پانی کی رطوبت کو شہد کی مکھی میں موجود حرارت (37 °) کے برابر نکال کر باقی شہد کی طرح کم حجم عصارہ نکالوں ۔میں نے جناب داکٹر مہدی مصطفوی جو کافی دنوں تک جرمن کے شہر اتریش اور دیگر ممالک میں زندگی گذار چکے تھے اور میرے کام میں دلچسپی بھی لیتے تھے ،سے سنا کہ ہندوستان میں ایک قسم کا شہد فراہم کیا جاتا اور بازار میں فروخت کیا جاتا ہے کہ جس میں میوہ جات کا جوس یا دودھ کی آمیزش ہوتی ہے ۔کچھ غور کرنے کے بعد میں سمجھ گیا کہ شہد کی مکھی کو میوہ کا جوس یا شکر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک ایسا شہد تیار ہوجاتا ہے جو میوہ کے جوس کا عصارہ اور نچوڑ ہوتی ہے۔میں نے اس کام کا لبنان کے انصار نامی علاقہ میں آغاز کیا تو کافی مقدار میں ویٹامین C پایا جانے والی اور مزہ میں مختلف قسم کا مرکب بن گیا۔زمین کے سطح کے اوپر بڑی تیزی سے بھاپ ہوجاتی ہے ۔لہذا جڑی بوٹیوں کا شہد سے مخلوط عصارہ 37 ° حرارت سے کم درجہ میں حاصل کرنے کی ترکیب سمجھ میں آگئی اور عملی ہوگئی۔

شہد کے ساتھ جڑی بوٹیوں سے عرق نکالنے کی مشین بنانا اور بڑے پیمانے پر پیداوار:

مین نے اس سلسلہ میں ایران میں ایک Italian مشین دیکھ کر37 ° حرارت سے کم میں 80٪بخار بنانے والی مشین بنائی اور لہسن،ترش لیمو ،سویا اور بجنورد کی سیاہ زرشک کے پانی اور سبز آخروٹ کی چھال ،سنجد اور ادرک وغیرہ سے کام شروع کردیا ۔ہر دوا بنانے کے لئے اور اس لئے کہ اس کی مختلف افراد پر تاثیرات مشاہدہ کروں ڈاکٹر سمیر فاعور سے ان کے مطب میں اور علاج کےلئے ان کے پاس آنے والے بیماروں اور اسی طرح نمائشگاہ میں خطی آزمائش سے مدد حاصل کی۔

ایران میں تحقیقی سرگرمی کا سلسلہ:

قم میں عربوں کے بازار میں ایک دفتر کا وجود باعث ہوا کہ مشتری پر دواؤں اور ان کی تاثیرات کا امتحان زیادہ سے زیادہ کروں۔ اسی طرح محصولات اور پیداوار کی بے قید اور شرط فروخت اور ان کا سرعت کے ساتھ فروخت ہوجانے نےاس کی تولید میں میرا ہاتھ کھول دیا اس طرح سے کہ تولید کی حالت میں ہر غلطی معمولی ضرر و نقصان کے ساتھ بکنے لگی.ایک دوا حاصل کرنے کے لئے دو چیز کی ضرورت تھی کہ اس مرکز نے ان کو فراہم کرلیا ۔ایک فرمانبردار بیمار اور دوسرا اچھا بازاراور اگر مجھے کسی دوا کے عمل اور اثر کرنے میں شک ہوتا تو اسے بیمار کو معالجہ کی شرط کے ساتھ مفت دیتا(میرے لبنان میں کام کی طرح) ۔ انہوں نے سبزینہ شہد (Chlorophyll Honey) کے Test کرنے کے لئے تقریبا 500 افراد شوگر کی آمائش کے ساتھ سبزینہ شہد (Chlorophyll Honey) کے کھانے سے پہلے اور بعد (تقریبا30 منٹ کے فاصلہ) سے یہ ثابت کرسکے کہ یہ عصارہ اور نچوڑ تین طرح سے مختلف افراد میں موثر ہوسکتا ہے،کہ جس کی تفصیل تحقیقی مرکز میں مکمل طور پر ذکر کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ تحقیق اور پژوھش کے لئے انہوں نے ابھی (www.ShafaCenter.ir) سائٹ ضروری سجھی اور اس سائٹ میں خاص محصولات کے لئے کسی قسم کی کوئی خاص ترویج قبول نہیں کرتے یہ سائٹ شفا اور علاج کے بارے میں علمی اور تحقیقی اہمیت رکھتی ہے جو قرآن میں شہد اور شہد کی مکھیوں کے محصولات (Product) کے بارے میں ہے اور اسے شفا سینٹر کا نام دیا ہے۔

 

ارتباطی طریقے

دفتر قم کاپتہ:ایران - قم - بلوار محمد امین-بین کوچه 11و13
رابطہ نمبر: 00982532930344 - 00989127553030

  • دانشنامه شفاسنتر
  • فروشگاه عسل حکیم
  • جامعة علوم القرآن